![]() |
| BBC URDU |
فلم شکتی میں پولیس کی وردی کے وقار اور اس کی حدود کی وضاحت کرنے والا ایک باپ اور جیل میں قید معصوم بیٹے کے نشتر سے جو تلخی ابھر کر سامنے آتی ہے وہ دونوں کے درمیان فاصلے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
فلم میں جیل کا ایک منظر جس میں قتل کے ایک ملزم سے ایک پولیس افسر جیل میں بات کرنے آیا ہے۔
پولیس افسر: ’وجے یہ مت بھولنا کہ میں یہاں تمھارے باپ کی حیثیت سے نہیں، ایک پولیس افسر کی حیثیت سے بات کر رہا ہوں۔‘
وجے: ’کون سی نئی بات ہے؟ آپ نے مجھ سے ہمیشہ ایک پولیس افسر کی حیثیت سے بات کی ہے۔‘
پولیس افسر: ’دیکھو وجے، اگر تمھیں مجھ سے کوئی گلہ ہے، کوئی شکایت ہے، وہ غلط ہے، صحیح ہے، وہ اپنی جگہ ہے۔ لیکن یہاں تمھیں بھول جانا چاہیے کہ تم میرے بیٹے ہو۔‘
پولیس کی وردی کے وقار اور اس کی حدود کی وضاحت کرنے والا ایک باپ اور جیل میں قید معصوم بیٹے کے نشتر سے جو تلخی ابھر کر سامنے آتی ہے وہ دونوں کے درمیان فاصلے کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔
جب یکم اکتوبر سنہ 1982 کو ہدایت کار رمیش سپی کی فلم شکتی ریلیز ہوئی اور لوگوں نے دلیپ کمار کو پولیس افسر اور امیتابھ بچن کو ان کے بیٹے کے کردار میں دیکھا تو یہ کسی تہلکے سے کم نہیں تھا۔
یہ وہ دور تھا جب امیتابھ بچن 'زنجیر'، 'شعلے' اور 'دیوار' جیسی سپرہٹ فلموں کے بعد سپر سٹار بن چکے تھے۔ جبکہ دلیپ کمار اپنے کریئر کی دوسری اننگز میں نئے مضبوط کرداروں کی تلاش میں تھے۔ ایسے میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن کا آمنے سامنے ہونا اپنے آپ میں ایک بڑی خبر تھی۔
دلیپ کمار بمقابلہ امیتابھ بچن
'شکتی' ایک باپ بیٹے کی کہانی ہے جن کے درمیان غلط فہمیاں، نا اتفاقیاں، خاموشیاں اور دوریاں گھر کر گئی ہیں، اتنی گہری خلیج بن گئی ہے جو المیے میں بدل کر پورے خاندان کو ذہنی طور پر مفلوج کر رہی ہے۔
باپ بیٹے کے درمیان ان دوریوں کی بڑی وجہ بچپن کا ایک واقعہ ہے۔ پولیس افسر اشونی کمار (دلیپ کمار) اور ان کی بیوی راکھی (شیتل) اپنے بیٹے وجے (امیتابھ بچن) کے ساتھ ہنسی خوشی زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔
ایک بار سمگلر جے کے (امریش پوری) کے غنڈے وجے کو بچپن میں اٹھا لے جاتے ہیں اور دلیپ کمار کے سامنے شرط رکھتے ہیں کہ اپنے بیٹے کی جان کے لیے وہ ان کے ساتھیوں کو جیل سے رہا کر دیں۔
فون پر ایک خوفزدہ بچہ باپ سے خود کو بچانے کی التجا کرتا ہے۔ لیکن پولیس افسر (دلیپ کمار) جو ڈیوٹی کے راستے پر گامزن ہیں کہتے ہیں کہ وہ قیدی کو رہا نہیں کریں گے۔ بہرحال فون ٹیپ کرنے کے بعد، دلیپ کمار وہاں پہنچ جاتے ہیں اور اسی دوران وجے بھی ایک غنڈے کی مدد سے فرار ہونے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔
بچپن کا یہ واقعہ وجے کے ذہن میں نفسیاتی سطح پر ایسا گھر کر جاتا ہے کہ وہ اپنے والد سے لا تعلق رہنے لگتا ہے اور یہ خلیج عمر کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔
راج ببر پہلی پسند تھے، امیتابھ نہیں
ویسے فلم شکتی کے کرداروں کا انتخاب کیسے کیا گیا یہ اپنے آپ میں ایک دلچسپ کہانی ہے۔ ڈی سی پی کے مضبوط کردار کے لیے دلیپ کمار ہمیشہ پہلی پسند تھے۔ چونکہ دلیپ کمار کا کردار نوجوان ہیرو سے زیادہ طاقتور سمجھا جا رہا تھا اس لیے نئے ہیرو کی تلاش شروع ہوئی تاکہ انا کا تصادم نہ ہو۔
سنہ 2015 میں فلم میگزین فلم فیئر کو دیے گئے ایک انٹرویو میں رمیش سپی کہتے ہیں کہ ’ہم نے ایک نئے ہیرو کا آڈیشن لیا لیکن اس میں وہ شدت کہاں سے لاتے۔ اسی دوران امیتابھ کو معلوم ہوا کہ ہمیں ایسے کردار کی تلاش ہے تو انھوں نے پوچھا کہ مجھے کیوں نہیں لیا گیا۔ میں نے امیتابھ کو صاف طور پر کہہ دیا کہ آپ کا کردار سادہ ہے، اس میں لارجر دین لائف شبیہ کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ لیکن انھیں دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کا آئیڈیا بہت پسند آیا۔ انھیں خود پر یقین تھا۔ میں نے ان سے کہا کہ دلیپ کمار کے ساتھ دوبارہ کام کرنے کا موقع کہاں ملے گا۔'
یہ کردار در اصل راج ببر کو دیا گیا تھا لیکن پھر امیتابھ بچن کو دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔
فلم شکتی کو یاد کرتے ہوئے فلم ناقد رامچندرن سری نواسن کہتے ہیں: 'یہ فلم 1977 میں شروع ہوئی تھی۔ منظر یہ تھا جب امیتابھ بچن ہیلی کاپٹر سے اترتے ہیں اور دلیپ کمار سے ملتے ہیں۔ لیکن رمیش سپی کو پہلے فلم 'شان' مکمل کرنی تھی، اس لیے شکتی کو ملتوی کر دیا گیا۔ پہلے نیتو کپور ہیروئن تھیں لیکن جب فلم بندی ملتوی ہو گئی تو سمیتا پاٹل کو شکتی میں کاسٹ کیا گیا کیونکہ نیتو سنگھ نے فلموں میں کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔'
وہ بتاتے ہیں: 'ایک قصہ یہ بھی ہے کہ دلیپ کمار چاہتے تھے کہ امیتابھ ان کے بھائی کے کردار میں ہوں لیکن سلیم جاوید نے انھیں اس بات پر راضی کیا کہ امیتابھ کا بیٹا ہونا ہی اہم ہے اور مجھے بھی یہ کردار پسند آیا۔ امیتابھ کو گولی مارنے کے بعد جب دلیپ کمار خاموش کھڑے ہوتے ہیں تو یہ خاموشی بہت کچھ کہتی ہے۔ یہ بہت اچھا سین ہے، ڈرامائی ہونے کا خطرہ تھا لیکن دلیپ کمار نے اس بخوبی نبھایا۔'
جب امیتابھ کو دلیپ کمار کا آٹوگراف نہیں ملا
دلیپ کمار کی امیتابھ بچن کے لیے کیا اہمیت تھی یہ بات انھوں نے اپنے بلاگ میں شیئر کی ہے۔
وہ لکھتے ہیں: 'جب میں چھوٹا تھا، ہم نے دلیپ کمار کو ایک ریستوران میں دیکھا۔ میں نے ان سے آٹوگراف مانگنے کی ہمت کی۔ میں جوش سے کانپ رہا تھا۔ لیکن میرے پاس آٹوگراف بک نہیں تھی۔ میں نے دوڑ کر آٹوگراف بک حاصل کی اورآکر سکون کا سانس لیا کہ وہ ریسٹورنٹ میں ہی تھے۔ وہ پوری طرح سے گفتگو میں محو تھے، میں نے ان سے کچھ کہا اور بک آگے بڑھا دی۔ انھوں نے کوئی ردعمل ظاہر نہیں کیا، انھوں نے میری طرف دیکھا یا نہ میری بک کی طرف دیکھا۔ تھوڑی دیر بعد وہ چلے گئے۔ میں آٹوگراف بک ہاتھ میں لیے کھڑا تھا۔ لیکن وہ آٹو گراف اہم نہیں تھا۔ جو چیز اہم تھی وہ ان کی موجودگی تھی۔'
شعلے کے انداز کے برعکس شکتی فلم میں نہ تو دلچسپ پنچ لائنیں ہیں، نہ کامیڈی، نہ مکمل رومانس اور نہ ہی اس طرح کے پر زور ڈائلاگ ہی ہیں۔
ایک طرف شکتی میں پولیس افسر دلیپ کمار ہیں، جو ڈیوٹی کے راستے میں حد سے گزرتے رہتے ہیں۔ ان کا ایک مکالمہ ہے کہ 'اب تو فرض نبھانے کی ایک عادت سی ہو گئی ہے۔' اس سب میں بیٹا کب پیچھے چھوٹ جاتا ہے انھیں خود بھی پتہ نہیں چلتا۔
دوسری طرف بیٹا وجے یعنی امیتابھ بچن اپنے اندر کی تکلیف اور والد کے خلاف بغاوت کو ہی اپنا مقصد زندگی بنا چکا ہے۔ وہ لفظوں سے کچھ نہیں کہتا لیکن خاموشی سے سب کچھ کہتا ہے۔ جسے انگریزی میں brooding intensity کہتے ہیں، یہی اس کردار میں امیتابھ کی خاصیت ہے۔
ایک دن ایسا آتا ہے جب سمگلر گینگ میں شامل ہونے کے بعد بیٹا پولیس کی وردی میں اپنے باپ کو اپنے سامنے کھڑا پاتا ہے اور درمیان میں قانون کی زنجیر ہوتی ہے۔ باپ کا قانون کے تئیں فرض شناسی کا جذبہ بیٹے اور باپ کے درمیان دیوار بن گیا ہے۔
https://twitter.com/loveofcinemasf8/status/1546539733207040000
سلیم جاوید کا بہترین سکرین پلے
اسے فلم کی کامیابی ہی کہا جائے گا کہ بطور ناظر آپ یہ فیصلہ نہیں کر پا رہے ہیں کہ کون صحیح ہے اور کون غلط، کوئی غلط ہے یا نہیں۔ یہ فلم صحیح اور غلط کے درمیان تاریک راستے پر چلتی ہے۔
سکرین پلے کے لحاظ سے شکتی کو سلیم جاوید کے بہترین سکرپٹ میں سے ایک مانا جاتا ہے۔ دو لوگوں کے درمیان کی تلخی کو پیش کرنے والی کہانی ایسی ہے کہ فلم کے شروع میں ہی یہ پتا ہوتا ہے کہ فلم کا انجام کیا ہوگا۔ پھر بھی آپ آخر تک بندھے رہتے ہیں۔
خاص طور پر وہ تمام مناظر جہاں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن آمنے سامنے ہوتے ہیں۔ فلم کے مکالموں میں باپ بیٹے کے تنازعے کو جس طرح پیش کیا گیا ہے وہ بھی اپنا اثر چھوڑتا ہے، اور ان کے درمیان خاموشی بھی۔
فلمی نقاد رامچندرن سری نواسن کا کہنا ہے کہ 'سلیم جاوید کے سکرین پلے نے ان دنوں ناظرین کو سینما ہال تک لانے میں بڑا کردار ادا کیا تھا۔ ان کی تخلیقی صلاحیتوں نے کئی اداکاروں اور فلم سازوں کی قسمت بدل دی تھی۔ 'اینگری ینگ مین' ان کی دین ہے۔ اس فلم میں سلیم جاوید نے ایک نوجوان کو آگے بڑھایا۔ سکرین پلے اتنا سخت ہے کہ لگتا ہے کہ اگر سلیم جاوید کی کہانی نہ ہوتی تو یہ فلم نہ چلتی۔ شکتی کی طرح رمیش سپی کی شہری ماحول میں بنائی گئی فلم شان نہ چل سکی تھی۔ لیکن رمیش سپی نے شکتی فلم بنائی کیونکہ اس کا سکرین پلے بہترین اور شاندار تھا۔'
فلم کا ایک سین خاص طور پر دل کو چھو لینے والا ہے۔ راکھی یعنی امیتابھ کی ماں اور دلیپ کمار کی بیوی کی موت ہو گئی ہے۔ اس وقت امیتابھ جیل میں ہوتے ہیں جنھیں خود ان کے والد ڈی سی پی اشونی کمار (دلیپ کمار) نے گرفتار کیا ہوتا ہے۔
جب امیتابھ اپنی ماں کے آخری دیدار کے لیے جیل سے تھوڑی دیر کے لیے آتے ہیں تو وہ ٹوٹے ہوئے باپ کو کونے میں فرش پر بیٹھے ہوئے دیکھتے ہیں۔ امیتابھ اس کے پاس جا کر زمین پر بیٹھ جاتے ہیں، دونوں کے درمیان کوئی بات نہیں ہوتی۔
امیتابھ بس آہستہ سے ان کے بازو پر ہاتھ رکھتے ہیں۔ جس طرح کے کیمرہ اینگل سے یہ سین شوٹ کیا گیا ہے، دونوں کی نظریں آپس میں ملتی ہیں، جب ایک کی نظر اٹھتی ہے تو دوسرے کی جھک جاتی ہے۔ کوئی کچھ نہیں کہتا پھر بھی دونوں ایک دوسرے کو سب کچھ کہہ دیتے ہیں۔ غم اور موت کے اس لمحے میں گویا کچھ دیر کے لیے دونوں ایک ہو گئے تھے۔ اس منظر کو دیکھ کر لگتا ہے کہ آپ واقعی دو لیجنڈ اداکاروں کو ایک ساتھ دیکھ رہے ہیں۔

امیتابھ کی ریہرسل کے لیے چیخ پڑے دلیپ کمار
دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کے اپنے تجربے کے بارے میں امیتابھ نے اپنے بلاگ میں لکھا: 'شکتی میں دلیپ کمار کے ساتھ کام کرنے کا مجھے پہلا موقع ملا، وہ فنکار جو میرے آئیڈیل رہے تھے۔ فلم کے اختتام پر میری موت کا سین تھا جو ممبئی ایئرپورٹ کے اندر شوٹ کیا گیا تھا، اس وقت اسے سہار ایئرپورٹ کہا جاتا تھا، ہمیں خصوصی اجازت ملی تھی، جب میں اکیلے موت کے سین کی ریہرسل کر رہا تھا تو پروڈکشن اور عملے کی طرف سے بہت شور ہو رہا تھا۔
'اس وقت دلیپ کمار ریہرسل نہیں کر رہے تھے۔ لیکن شور سن کر وہ اچانک چیخے اور اونچی آواز میں سب کو چپ رہنے کو کہا۔ انھوں نے کہا تھا کہ جب کوئی فنکار ریہرسل کر رہا ہوتا ہے تو اس لمحے کی اہمیت کو سمجھنا چاہیے اور اس جگہ کا احترام کرنا چاہیے۔ دلیپ کمار جیسے تجربہ کار فنکار کا دوسرے فنکار کے لیے ایسا کرنا ان کی عظمت کو ظاہر کرتا ہے۔'
یہ بھی پڑھیے
بڑا اداکار کون؟ دلیپ، راج یا امیتابھ۔۔۔
دلیپ کمار: ارے بھائی، کیا کبھی یہ راستہ ختم نہیں ہوگا؟'
فلم دیکھتے ہوئے آپ ایک قسم کی کشمکش میں رہتے ہیں کہ کاش دونوں ایک دوسرے سے کبھی بات کر لیتے۔ دلیپ کمار ایک ایسے شخص کے طور پر ابھرتے ہیں جو اپنے جذبات کا اظہار کرنا نہیں جانتے۔ وہ نرس کو یہ بھی بتانے سے قاصر رہتے ہیں کہ جس عورت نے اندر بچے کو جنم دیا ہے وہ ان کی بیوی ہے۔
دوسری طرف امیتابھ بچن ایسے نوجوان ہیں جنھوں نے اپنے سارے زخم اور غصے کو اندر ہی اندر رکھا ہوا ہے جو ایک دن بغاوت بن کر پھوٹ پڑتا ہے۔
آنکھوں سے اداکاری کرنے والے امیتابھ
عام طور پر امیتابھ بچن کی فلموں میں دھوم مچانے والی انٹری ہوتی ہے، لیکن شکتی میں ان کا پہلا سین وہ ہے جہاں وہ میرین ڈرائیو پر بے روزگار نوجوان کے روپ میں ٹن کے ڈبے کو ٹھوکریں مارتے ہوئے چہل قدمی کر رہے ہیں۔
کہانی کی ڈیمانڈ کے مطابق شکتی میں سکرین پلے میں وہ گنجائش نہیں رکھی گئی۔ بچن کا کردار جو کہنا چاہتا ہے وہ یا تو ان کی خاموشی کہتی ہے یا کچھ مکالمے جو ان کے غصے کی عکاسی کرتے ہیں۔
مثال کے طور پر وہ ایک جگہ اپنے والد کے بارے میں کہتے ہیں: 'مجھے دنیا کے ہر اس قانون سے نفرت ہے جس کو میرا باپ مانتا ہے۔ آج سے میں اپنا قانون خود بناؤں گا۔ زندگی میں جو کچھ بھی دیکھا، اس کے بعد یہ نام ۔۔۔ بیٹا، کسی گندی گالی کی طرح لگتا ہے۔'
Source : بی بی سی نیوز اردو
